کیا غیر معصوم کو امام کہنا جائز نہیں ہے؟

مؤمنین کے درمیان تنازعات کھڑے کرنے کے لئے مختلف قسم کے مسائل اٹھائے جاتے ہیں؛ اور بڑی ہوشیاری سے تمام فریقوں کے مشترکہ مقدسات کی بےحرمتی کرتے اور کراتے ہیں؛ جن میں سے ایک یہ موضوع بھی ہے کہ “کیا ائمہ اہل بیت کے سوا کسی اور کو امام کہنا جائز ہے؟

نے ضابطہ اخلاق کے لئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی اور جس کو جو بھی لکھنا آتا ہے لکھ دیتا ہے، وہ بھی لکھ دیتے ہیں جو اگر کسی کتاب اور مکتوبہ جرائد میں کچھ لکھ لیں تو شاید انہیں عدالت سے سزا ہوجائے، لیکن یہاں نہ تو کوئی قدغن ہے اور نہ ہی کوئی پولیس اور قاضی، اور پیچھے سے کچھ لوگ کچھ چیزوں کو کنٹرول بھی کرتے ہیں اور غیر محسوس انداز سے کچھ سمتیں بھی متعین کرتے ہیں۔

مؤمنین کے درمیان تنازعات کھڑے کرنے کے لئے مختلف قسم کے مسائل اٹھائے جاتے ہیں؛ اور بڑی ہوشیاری سے تمام فریقوں کے مشترکہ مقدسات کی بےحرمتی کرتے اور کراتے ہیں؛ جن میں سے ایک یہ موضوع بھی ہے کہ “کیا ائمہ اہل بیت کے سوا کسی اور کو امام کہنا جائز ہے؟”؛ چنانچہ راقم الحروف نے یہاں کچھ جملے تحریر کئے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ کچھ مؤمنوں کے اذہان روشن ہوجائیں۔

لفظ امام دو صورتوں میں استعمال ہوتا ہے:

1۔ عام: جیسے امام جمعہ، امام جماعت، امام مسجد وغیرہ

2۔ خاص: جیسے امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام ۔۔۔

جو حضرات غیر اہل بیت کے سوا کسی کے لئے امام کے لفظ کے استعمال کو جائز نہیں جانتے ان کی مراد دوسری قسم کی امامت ہے جو مطلقا ائمہ معصومین علیہم السلام کے لئے مختص ہے؛ کیونکہ پہلی قسم کی امامت کی نسبت دوسروں کو دینا، جائز ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔

مراجع تقلید کو بھی امام کہا جاتا ہے اور عربی میں تو یہ بالکل عام سی بات ہے: امام سید محمد حسن شیرازی، امام کاشف الغطاء، امام خوئی، امام خمینی، امام خامنہ ای، امام سیستانی وغیرہ

کچھ لوگ تو امامت کو دونوں صورتوں میں سب کے لئے استعمال کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔

ہمارے پاس بھی کچھ دلائل ہیں جنہیں پڑھیں گے تو پشیمان نہ ہونگے:

زیارت جامعہ سے رجوع کرتے ہیں جو امام شناسی کا ایک مکمل کورس ہے:

1۔ ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:

“الْمُتَقَدِّمُ لَهُمْ مارِقٌ، وَالْمُتَاَخِّرُ عَنْهُمْ زاهِقٌ وَاللّازِمُ لَهُمْ لاحِقٌ؛ جو آپ (ائمہ) سے قدم آگے بڑھائیں وہ مارقین یعنی اطاعت حق سے خارج ہونے والے اور امام واجب الاطاعہ کی اطاعت چھوڑ دینے والے ہیں۔، جو آپ سے پیچھے رہیں وہ ایک دم نیست و نابود ہو جانے والے ہیں اور آپ کے ساتھ ساتھ چلیں وہ لاحقین اور آپ سے آملنے والے اطاعت گذار ہیں۔

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:

“وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ؛ جو رسول عطا کریں اسے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز آؤ، اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ سخت سزا والا ہے۔ (1)

اور ہمارا ایمان ہے کہ کلام اللہ حق ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اس کے رسول اور ائمہ طاہرین علیہم السلام، خدا کے اولیاء اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے خلفاء اور جانشین ہیں چنانچہ جو وہ عطا کریں ہمیں لینا پڑے گا اور جو حکم دیں گے تعمیل کرنا پڑے گی اور جس چیز سے روکیں گے، باز آنا پڑے گا بصورت دیگر ناکثین، قاسطین اور مارقین کے زمرے میں شمار ہونگے۔

ارشاد رب متعال ہے:

وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ؛ اور ہمارا مقصود یہ ہے کہ احسان کریں ان پر جنہیں دنیا میں دبایا یا پیسا گیا تھا اور انہی کو پیشوا قرار دیں، انہی کو آخر میں قابض و متصرف بنائیں (2)

نیز خداوند متعال نے مختلف لوگوں کو امام اور ائمہ کے نام سے یاد کیا ہے:

لفظ امام:

تو ہم نے ان (اصحاب ایکہ) سے بدلہ لیا اور یہ دونوں امام مبین (بمعنی شاہراہ عام) پر ہیں جو نمایاں ہے۔ (3)؛ جس دن ہم ہر دور کے لوگوں کو ان کے امام (بمعنی پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے۔ (4)؛ اور اس کے پہلے موسیٰ کی کتاب امام (بمعنی پیش رو) بن کر آئی تھی۔ (5)؛ اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام (بمعنی رہبر و پیش رو) بنا۔ (6)

لفظ ائمہ:

اور ائمۂ کفر (یعنی کفر کے سرغنوں) سے جنگ کرو (7)؛ اور انہیں ہم نے قرار دیا ایسے امام (بمعنی عمائد) جو آگ کی طرف بلاتے تھے (8)؛ اور ان (بنی اسرائیل) میں سے ہم نے کچھ امام (راہنما) قرار دیئے۔ (9)

احادیث شریفہ میں بھی امام کا لفظ مختلف لوگوں کے لئے استعمال ہؤا ہے مثبت عنوان سے بھی اور منفی عنوان سے بھی:

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:

“مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِهِ قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِهِ وَلْيَكُنْ تَأْدِيبُهُ بِسِيرَتِهِ قَبْلَ تَأْدِيبِهِ بِلِسَانِهِ وَمُعَلِّمُ نَفْسِهِ وَمُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالْإِجْلَالِ مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ وَمُؤَدِّبِهِمْ؛ جس نے اپنے آپ کو لوگوں کا امام مقرر کیا وہ دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے آپ کو تعلیم دے اور اپنی ذات اور روح کی تعمیر کرے اور زبان کے ذریعے سکھانے سے قبل اپنے کردار سے لوگوں کو تعلیم دے؛ کیونکہ جو اپنے آپ کو تعلیم دے اور ادب سکھائے، اس شخص سے کہیں زیادہ اجلال و تعظیم کا لائق ہے، جو دوسروں کو تعلیم دیتا اور ادب سکھاتا ہے”۔ (10)

امام سجاد علیہ السلام رسالۂ حقوق میں فرماتے ہیں:

“فَحُقُوقُ أَئِمّتِكَ ثَلَاثَةٌ أَوْجَبُهَا عَلَيْكَ حَقّ سَائِسِكَ بِالسّلْطَانِ ثُمّ سَائِسِكَ بِالْعِلْمِ ثُمّ حَقّ سَائِسِكَ بِالْمِلْكِ وَ كُلّ سَائِسٍ إِمَامٌ؛ آپ کے ائمہ (حکام اور راہنماؤں) کے حقوق کی تین قسمیں ہیں: سب سے زیادہ واجب حق تم پر اس شخص کا ہے جو طاقت (اور شرعی صلاحیت) کے ذریعے تمہارے معاملات کا انتظام و انصرام کرتا ہے؛ بعدازاں اس شخص کا حق جو علم آموزی کے ذریعے تمہاری پرورش کرتا ہے؛ اور پھر اس کا حق جو حکومت و مملکت میں تیرا امام (پیشوا) ہے اور ہر راہنما اور سرپرست امام ہے۔

چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور اہل بیت علیہم السلام کی دسوں حدثیوں میں لفظ امام بصورت عام دوسروں کے لئے استعمال ہؤا ہے۔ اور اس لفظ کے دوسروں کے لئے استعمال سے 12 ائمۂ طاہرین علیہم السلام کی امامت خاصہ کو کوئی گزند نہیں پہنچتی۔

نتیجہ:

آیات کریمہ میں اچھے اماموں اور برے اماموں کا تذکرہ گذرا، ایک آیت میں فرمایا گیا ہے اللہ مستضعفین کو امام بنائے گا، اور امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا کہ جو اپنے آپ کو لوگوں کا امام قرار دے، تو اسے اپنی تعلیم اور تربیت کو مقدم رکھنا چاہئے اور امام سجاد علیہ السلام نے ہر سرپرست کو امام قرار دیا تو اب میں کون ہوں اور میری اوقات کیا ہے کہ کہتا پھروں کہ لفظ امام کا استعمال غیر معصوم کے لئے جائز نہیں ہے! لگتا ہے کہ اگر ہم اپنی طرف سے معصوم کے احکامات کو نظرانداز کریں تو ممکن ہے کہ مارق اور زاہق کا مصداق ٹہریں جیسا کہ امام علی نقی الہادی علیہ السلام نے زیارت جامعہ میں فرمایا ہے:

“المُتَقَدِّمُ لَهُمْ مارِقٌ وَالمُتَأَخِرُ عَنْهُمْ زاهِقٌ؛ (11) ان سے آگے نکلنے والا دین سے خارج اور ان کے پیچھے رہ جانے والا نیست و نابود نابود ہونے والا ہے”۔

2-  کسی بھی شیعہ منبع اور ماخذ میں کہیں بھی نہیں ملتا کہ ائمۂ اہل بیت علیہم السلام نے اپنے سوا کسی اور کے لئے لفظ امام کے استعمال سے منع کیا ہو۔

3۔ قدیم علماء کی روایت تھی کہ بطور مثال ان کے رسالوں کی جلد پر لکھا ہوتا تھا: “الامام”؛ جیسے الامام سید محمد حسن شیرازی،الامام سید ابوالقاسم خوئی، وغیرہ۔

4. قرآن میں ائمہ کے مصادیق مختلف ہیں۔

پس ہمارے بارہ امام بطور خاص امام ہیں، لیکن ابراہیم علیہ السلام بھی امام ہیں، حضرت رسول اکرم(ص) بھی امام ہیں، بنی اسرائیل کے پیغمبر بھی امام ہیں جو اللہ کے حکم پر لوگوں کی ہدایت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو بھی رتبہ امامت حاصل ہے۔

5۔ اہل سنت اپنے مجتہدین اور محدثین کو امام کہتے ہیں جیسے: نعمان بن ثابت = امام ابو حنیفہ؛ محمد بن ادریس شافعی = امام شافعی؛ احمد بن حنبل شیبانی = امام احمد؛ مالک بن انس اصبحی؛ محمد بن اسماعیل بخاری = امام بخاری؛ مسلم بن حجاج نیسابوری = امام مسلم وغیرہ۔ ہم امام جماعت، امام جمعہ، نماز عید کے امام، مسجد کے امام یا پیش امام کو بےدھڑک امام کہہ دیتے ہیں لیکن اگر کہیں کہ امام خمینی یا امام خامنہ ای تو تنگ نظر حضرات فورا موقف اپناتے ہیں۔

چنانچہ انصاف سے کام لینا چاہئے، اپنے جسم پر اور اپنے مکتب کے پیکر مظلوم پر اتنے زخم نہیں لگانا چاہئے، جبکہ مکتب کو فکری، علمی میدانوں میں بھی اور حتی کہ میدان جنگ میں بھی دشمنوں اور مخالفین کا سامنا ہے، اور ہم بےخبری میں تمام تر مسائل اور اختلافات کو مکتب کے اندر دھکیل دیتے ہیں، اس سے فائدہ کس کو ملتا ہے؟ کیا مکتب تشیع مظلوم نہیں ہے؟ اگر ہے تو کیا ہم خود اس پر ظلم نہيں کررہے۔۔۔ قابل ذکر ہے کہ جو لوگ امام خمینی اور امام خامنہ ای کو امام کہتے ہیں اس وقت اگلے مورچوں میں مقدسات کے دفاع میں مشغول ہیں اور جان کا نذرانہ پیش کررہے ہیں اور کم ہی ملیں گے ایسے جو لفظ امام کے اطلاق پر تو رد عمل ظاہر کرتے ہیں لیکن دفاع کے میدانوں میں دور دور تک بھی نہیں دکھائی دیتے۔ اور امام خامنہ ای اس زمانے میں پوری امت کے علمدار ہیں، اور نوجوانان شیعہ دنیا کے گوشوں گوشوں سے آکر ان کے فرمان پر مقدسات اسلامی کے تحفظ کے لئے جانیں نچھاور کررہے ہیں۔

سوال : کیا واقعی امام خمینی اور امام خامنہ ای کے پیروکار انتہا پسند ہیں؟ کیا وہ انہیں امام معصوم(ع) کے برابر سمجھتے ہيں؟

جواب: ہرگز نہیں؛ مغربی اور ماسونی اصطلاح میں ہر اس شخص کو انتہا پسند مسلمان کہا جاتا ہے جو دین اسلام کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنا چاہتے ہیں اور اور اسلام کے تمام احکام اور تعلیمات کے عملی نفاذ کے قائل ہیں؛ وہ جو قرآن کی تمام تعلیمات اور تمام آیات کی پابندی کے قائل ہیں، وہی جو ظلم کے خلاف جہاد کے قائل ہیں اور استکباری اور یہودی سازشوں اور ان کی یلغار کا سد باب کرنے کے قائل ہیں اور وہ جو مغربی منصوبوں کی پیروی کے بجائے خود سوچنے اور منصوبہ سازی کرنے اور اپنی تہذیب کے مطابق اپنی قوم کے امور کے انتظام کے قائل ہیں۔ اور امام خمینی اور امام خامنہ ای کے پیروکار اتفاق سے اسی طرز فکر کے حامل ہیں اور قرآن کے مکمل نفاذ کے قائل ہیں جہاں ارشاد ہؤا ہے:

خداوند متعال نے یہودیوں سے ارشاد فرمایا:

“أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ؛ تو کیا تم کتاب کے کسی جزو کو تو مانتے ہو اور کسی جزو سے انکار کرتے ہو؟”۔ (12)

“إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً؛ بلاشبہ وہ جو اللہ اور اس کے پیغمبر کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے پیغمبروں میں تفریق کرناچاہتے ہیں کہ ہم کچھ پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں اور اس کے بیچ میں ایک راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں”۔ (13)

چنانچہ اگر ان بزرگواروں کے پیروکار پورے قرآن کو مانتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں تو وہ درحقیقت اللہ کے سچے بندے ہیں اور پھر وہ میدان میں جاکر جان ہتھیلی پر رکھ کر عملی صورت میں بھی جہاد اور تقابل کی آیات کو نافذ کرتے ہیں لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر انتہا پسندی یہی ہے تو یہ باعث فخر ہے ایک مسلمان کے لئے۔

دوسری بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو حتی کہ امام معصوم کو معصوم کہنے اور ان کے لئے “علیہ السلام” کہنے کے مخالف ہیں اور حتی کہ ان کے مشاہد شریفہ کی زیارت اور ان سے طلب شفاعت کو حرام سمجھتے ہیں اور دوسری طرف سے ایسے بھی لوگ ہیں جو غلو اور زیادہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں جن کی مثال ہمارے اس مضمون کا موضوع بھی، ہے تو کیا ہمیں غلو سے بچنے کے لئے امیرالمؤمنین اور علی علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے؟ اور اگر کوئی اور کیا آج اگر ہم ان علمداران امت کو امام کہنے کی نا پر غلو اور انتہاپسندی کے ملزم ٹہرائے جائیں تو کیا ہمیں ان کی شخصیات اور کارناموں کی تشہیر سے پرہیز کرنا چاہئے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم غلو کے الزام کے خوف سے ائمہ اہل البیت علیہم السلام کے فضائل بیان کرنا ترک کردیں، تو منکرین کی صف میں شمار ہونگے؟ تو کیا ان کے منکرین کا حال غالیوں سے بہتر ہوگا “روز قیامت”، جبکہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:

“يَهْلِكُ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَبَاهِتٌ مُفْتَرٍ. (قال الرضي:) وَهذا مثل قوله (عليه السلام): هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَمُبْغِضٌ قَالٍ؛ میری نسبت دو قسم کے لوگ ہلاک ہونگے وہ جو دوستی میں زیادہ روی کرے اور اپنی حد سے بڑھ جاتے ہیں اور وہ جو جھوٹے اور بہتان تراش ہیں۔ (سید رضی [رح] کہتے ہیں کہ یہ امام کے اس قول کی مانند ہے کہ) دو قسم کے لوگ میری نسبت ہلاک اور نیست و نابود ہونگے: وہ جو محبت میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور غلو کرتے ہیں اور وہ جو وہ دشمن جو بیہودہ گوئی کرتے ہیں”۔ (14)

یقینا آج تک اس راقم کو کوئی شخص نظر نہیں آیا جو امام خمینی یا امام خامنہ ای کو امام کے عنوان سے یاد کرے تو اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ (معاذاللہ>) امام معصوم علیہ السلام کے ہم پلہ ہیں یا (معاذاللہ>) امام معصوم اور امام زمانہ (عَجَّلَ‌ اللہُ تعالىٰ فَرَجَہُ الشَّرِیف) کے مد مقابل ہیں؛ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ نائبین امام زمانہ ہیں اور عقیدہ یہ اہل بیت کے فرامین کے عین مطابق بھی؛ جبکہ معترضین ائمہ معصومین علیہ السلام سے آگے بڑھ کر یا پیچھے رہ کر مارقین و زآہقین کے زمرے میں شامل ہوجاتے ہیں؛ جو کہ افسوسناک امر ہے اور ہمیں اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے۔

کم علم ہونا عیب نہیں ہے، لیکن کم علمی کے سامنے اگر صاحبان علم اپنی ذمہ داری پر عمل نہ کریں، یعنی اپنی دانش ظاہر نہ کریں اور کم علموں کو نہ سمجھائیں تو یہ (کم علمی) انتہاپسندی، زیادہ روی اور تشدد و تکفیر پر منتج ہوسکتی ہے۔ علماء اور اہل دانش کی ذمہ داری جہل، نادانی اور زیادہ روی کا ازالہ کرنا ہے نہ کہ اہل حق کو حق چھوڑنے کی نصیحتیں شروع کریں: امام حسین علیہ السلام کے مدینہ سے مکہ روانہ ہوتے اور مکہ سے عراق روانہ ہوتے وقت ایسے بہت سوں کا سامنا کرنا پڑا جن کی ذمہ داری امام کا ساتھ دینا تھی لیکن انھوں نے ساتھ دینے کے بجائے ان کو نصیحت کی کہ عراق نہ جائیں و۔۔۔ اور انہیں یہاں تک بھی ادراک نہ تھا کہ امام کو مشورہ نہیں دیا جاتا بلکہ امام کی اطاعت ہوتی ہے۔

ہدایت چاہتے ہیں اللہ کی، رسول اور آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے صدقے، کہ ہم اپنا اور اپنے مؤمن بھائیوں کا وقت اور سرمایہ کم علمی سے جنم لینے والے اعتراضات پر صرف کرنے کے بجائے اپنی دانش میں اضافہ کریں، دشمن کو پہچان لیں، اس کی چالوں کو پہچان لیں اور سوچ لیں کہ کیا مؤمنین کے درمیان اس جیسی کوئی بھی بحث چھیڑنے میں کہیں کسی دشمن کا ہاتھ تو نہیں ہے! الٰہی آمین۔

۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ سورہ حشر، آیت 7۔

2۔ سورہ قصص، آیت 5۔

3۔ سورہ حجر، 79۔

4۔ سورہ اسراء، 71۔

5۔ سورہ احقاف، 12۔

6۔ سورہ فرقان، 74۔

7۔ سورہ توبہ، 12۔

8۔ سورہ قصص، 41۔

9۔ سورہ سجدہ، 24۔

10۔ نہج البلاغہ، حکمت 73۔

11۔ مفاتیح الجنان، زیارت جامعہ۔

12۔ سورہ بقرہ، آیت 85۔

13۔ سورہ نساء، 150۔

14۔ نہج البلاغہ، حکمت 459۔

۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا

2 تبصرے
  1. محمد ہادی کہتے ہیں

    اسلام علیکم محترم آغا صاحب بہت ہی اعلٰی اور مدلل جواب دی ہے شکریہ لیکن میرا ایک سوال ہے کہ کیا صرف رہبر معظم حفظ اللہ کو نائب امام ماننا چاہئے یا سارے مجتہدین عظام نائبین امام ہیں..

    1. حجت الاسلام مهدی طاها کہتے ہیں

      سلام علیکم
      تمام مراجع کرامغیبت امام عصر عج میں اپنی اعلمیت اور تقوی کی وجہ سے نائب امام عج تصور کئے جاتے ہیں اور مقام معظم رہبری ان مراجع کرام اور دنیائے اسلام کے درمیان اہم مقام و منزلت کے حامل ہیں اور آپ آج کفر سے مقابلے کے میدان میں دنیائے تشیع کے حقیقی علمبردار ہیں اور تمام شیعوں پر لازم ہے کہ انکی حمایت کریں۔
      وفقکم اللہ لکل خیر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.